کھڑا تھا کب سے زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے
آب آدمی ہے قیامت سے لو لگائے ہوئے
یہ دشت سے امڈ آیا ہے کس کا سیل جنوں
کہ حسن شہر کھڑا ہے نقاب اٹھائے ہوئے
یہ بھید تیرے سوا اے خدا کسے معلوم
عذاب ٹوٹ پڑے مجھ پہ کس کے لائے ہوئے
یہ سیل آب نہ تھا زلزلہ تھا پانی کا
بکھر بکھر گئے قریے مرے بسائے ہوئے
عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے
سحر ہوئی تو کوئی اپنے گھر میں رک نہ سکا
کسی کو یاد نہ آئے دیے جلائے ہوئے
خدا کی شان کہ منکر ہیں آدمیت کے
خود اپنی سکڑی ہوئی ذات کے ستائے ہوئے
جو آستین چڑھائیں بھی مسکرائیں بھی
وہ لوگ ہیں مرے برسوں کے آزمائے ہوئے
یہ انقلاب تو تعمیر کے مزاج میں ہے
گرائے جاتے ہیں ایواں بنے بنائے ہوئے
یہ اور بات مرے بس میں تھی نہ گونج اس کی
مجھے تو مدتیں گزریں یہ گیت گائے ہوئے
مری ہی گود میں کیوں کٹ کے گر پڑے ہیں ندیمؔ
ابھی دعا کے لیے تھے جو ہاتھ اٹھائے ہوئے
غزل
کھڑا تھا کب سے زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے
احمد ندیم قاسمی