EN हिंदी
احمد فراز شیاری | شیح شیری

احمد فراز شیر

167 شیر

وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیئے

احمد فراز




یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے
کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست

احمد فراز




یہ اب جو آگ بنا شہر شہر پھیلا ہے
یہی دھواں مرے دیوار و در سے نکلا تھا

احمد فراز




یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے

احمد فراز




یہ کون پھر سے انہیں راستوں میں چھوڑ گیا
ابھی ابھی تو عذاب سفر سے نکلا تھا

احمد فراز




یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

احمد فراز




یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

احمد فراز




یوں تو پہلے بھی ہوئے اس سے کئی بار جدا
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا

احمد فراز




یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

احمد فراز