پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
احمد فراز
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
even tho no longer close we are as used to be
come even if it's purely for sake of formality
احمد فراز
قاصدا ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
احمد فراز
قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
احمد فراز
رات بھر ہنستے ہوئے تاروں نے
ان کے عارض بھی بھگوئے ہوں گے
احمد فراز
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
احمد فراز
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
احمد فراز
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
سائے ہیں اگر ہم تو ہو کیوں ہم سے گریزاں
دیوار اگر ہیں تو گرا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز