EN हिंदी
احمد فراز شیاری | شیح شیری

احمد فراز شیر

167 شیر

پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

احمد فراز




پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

even tho no longer close we are as used to be
come even if it's purely for sake of formality

احمد فراز




قاصدا ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

احمد فراز




قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

احمد فراز




رات بھر ہنستے ہوئے تاروں نے
ان کے عارض بھی بھگوئے ہوں گے

احمد فراز




رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

احمد فراز




رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

احمد فراز




رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز




سائے ہیں اگر ہم تو ہو کیوں ہم سے گریزاں
دیوار اگر ہیں تو گرا کیوں نہیں دیتے

احمد فراز