یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے
ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جا
یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے
غلط ہے جو سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا دیکھا نہ جائے
یہ محرومی نہیں پاس وفا ہے
کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے
یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
فرازؔ اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
غزل
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
احمد فراز