مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
احمد فراز
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
احمد فراز
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں
احمد فراز
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آئے ہی نہیں اب کے گلابوں والے
احمد فراز
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
احمد فراز
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
احمد فراز
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے
احمد فراز