EN हिंदी
احمد فراز شیاری | شیح شیری

احمد فراز شیر

167 شیر

میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گئے آئینہ دکھا کے مجھے

احمد فراز




میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے

احمد فراز




میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

احمد فراز




میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا
کہ دل کا زہر مری چشم تر سے نکلا تھا

احمد فراز




مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب
بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو

احمد فراز




مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

when the parched had died of thirst, then the flagon came
the gathering is extinguished now why do you light the flame?

احمد فراز




میری خاطر نہ سہی اپنی انا کی خاطر
اپنے بندوں سے تو پندار خدائی لے لے

احمد فراز




میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

احمد فراز




مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی

احمد فراز