سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی
وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے
احمد فراز
ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
ساقی ترے مے خوار بڑی دیر سے چپ ہیں
احمد فراز
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
احمد فراز
سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
احمد فراز
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
احمد فراز
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
احمد فراز
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
احمد فراز
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
احمد فراز
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
احمد فراز