EN हिंदी
احمد فراز شیاری | شیح شیری

احمد فراز شیر

167 شیر

ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فرازؔ
میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو

احمد فراز




اجاڑ گھر میں یہ خوشبو کہاں سے آئی ہے
کوئی تو ہے در و دیوار کے علاوہ بھی

احمد فراز




عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

احمد فراز




اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترک محبت کرنے والو تم تنہا رہ جاؤ گے

احمد فراز




اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

احمد فراز




وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے خبر ہی نہیں میں نہیں رہا اس کا

احمد فراز




وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گلہ تو اس کا ہے
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی

احمد فراز




وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے

احمد فراز




وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی
یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے

احمد فراز