چاند کو تالاب مجھ کو خواب واپس کر دیا
دن ڈھلے سورج نے سب اسباب واپس کر دیا
اس طرح بچھڑا کہ اگلی رونقیں پھر آ گئیں
اس نے میرا حلقۂ احباب واپس کر دیا
پھر بھٹکتا پھر رہا ہے کوئی برج دل کے پاس
کس کو اے چشم ستارہ یاب واپس کر دیا
میں نے آنکھوں کے کنارے بھی نہ تر ہونے دیئے
جس طرف سے آیا تھا سیلاب واپس کر دیا
جانے کس دیوار سے ٹکرا کے لوٹ آئی ہے گیند
جانے کس دیوار نے مہتاب واپس کر دیا
پھر تو اس کی یاد بھی رکھی نہ میں نے اپنے پاس
جب کیا واپس تو کل اسباب واپس کر دیا
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غم نایاب واپس کر دیا
غزل
چاند کو تالاب مجھ کو خواب واپس کر دیا
عباس تابش