گھر کی حد میں صحرا ہے
آگے دریا بہتا ہے
آشفتہ چنگیزی
آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی
آشفتہ چنگیزی
عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
آشفتہ چنگیزی
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
آشفتہ چنگیزی
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا
آشفتہ چنگیزی
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
آشفتہ چنگیزی
دل دیتا ہے ہر پھر کے اسی در پہ صدائیں
دیوار بنا ہے ابھی دیوانہ نہیں ہے
آشفتہ چنگیزی
ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں
آشفتہ چنگیزی
گھر کے اندر جانے کے
اور کئی دروازے ہیں
آشفتہ چنگیزی