بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
تڑپ باقی رہے گی جھوٹ ہے یہ
ملیں گے ہم ملاقاتیں رہیں گی
نظر میں چہرہ کوئی اور ہوگا
گلے میں جھولتی بانہیں رہیں گی
سفر میں بیت جانا ہے دنوں کو
مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی
زبانیں نطق سے محروم ہوں گی
صحیفوں میں مناجاتیں رہیں گی
مناظر دھند میں چھپ جائیں گے سب
خلا میں گھورتی آنکھیں رہیں گی
کہاں تک ساتھ دیں گے شہر والے
کہاں تک قید آوازیں رہیں گی
غزل
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
آشفتہ چنگیزی