رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی
آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی
تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں کی
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
پہلے ہی کہا کرتے تھے مت غور سے دیکھو
ہر بات نرالی ہے یہاں دیدہ وراں کی
آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی
غزل
رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
آشفتہ چنگیزی