گھر میں اور بہت کچھ تھا
صرف در و دیوار نہ تھے
آشفتہ چنگیزی
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
آشفتہ چنگیزی
گھر کے اندر جانے کے
اور کئی دروازے ہیں
آشفتہ چنگیزی
ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں
آشفتہ چنگیزی
دل دیتا ہے ہر پھر کے اسی در پہ صدائیں
دیوار بنا ہے ابھی دیوانہ نہیں ہے
آشفتہ چنگیزی
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
آشفتہ چنگیزی
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا
آشفتہ چنگیزی
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
آشفتہ چنگیزی
عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
آشفتہ چنگیزی