آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
آشفتہ چنگیزی
گھر میں اور بہت کچھ تھا
صرف در و دیوار نہ تھے
آشفتہ چنگیزی
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
آشفتہ چنگیزی
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
آشفتہ چنگیزی
ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہوگا
کہاں کہاں مگر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے
آشفتہ چنگیزی
جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ رہتا تھا
ضرور کوئی نہ کوئی تو واسطا ہوگا
آشفتہ چنگیزی
کہا تھا تم سے کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں
کبھی تو قافلے والوں کی بات رکھ لیتے
آشفتہ چنگیزی
خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
آشفتہ چنگیزی