EN हिंदी
گھر کی حد میں صحرا ہے | شیح شیری
ghar ki had mein sahra hai

غزل

گھر کی حد میں صحرا ہے

آشفتہ چنگیزی

;

گھر کی حد میں صحرا ہے
آگے دریا بہتا ہے

حیرت تک مفقود ہوئی
اتنا دیکھا بھالا ہے

جانے کیا افتاد پڑے
خواب میں اس کو دیکھا ہے

آہٹ کیسی بستی میں
کون یہ رستہ بھولا ہے

رستے اپنے اپنے ہیں
کون کسی کو سمجھا ہے

قید سے وحشی چھوٹ گئے
دیکھیں کیا گل کھلتا ہے

اڑنے والا پنچھی کیوں
پنکھ سمیٹے بیٹھا ہے