EN हिंदी
شم شیاری | شیح شیری

شم

33 شیر

ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے

احمد فراز




ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے

احمد مشتاق




جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی

احمد مشتاق




بس ایک شام کا ہر شام انتظار رہا
مگر وہ شام کسی شام بھی نہیں آئی

اجمل سراج




کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

اختر ہوشیارپوری




عصر کے وقت میرے پاس نہ بیٹھ
مجھ پہ اک سانولی کا سایہ ہے

علی زریون




سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے

امجد اسلام امجد