EN हिंदी
طارق نعیم شیاری | شیح شیری

طارق نعیم شیر

18 شیر

اب آسمان بھی کم پڑ رہے ہیں اس کے لیے
قدم زمین پر رکھا تھا جس نے ڈرتے ہوئے

طارق نعیم




ابھی پھر رہا ہوں میں آپ اپنی تلاش میں
ابھی مجھ سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا

طارق نعیم




ابھی تو منصب ہستی سے میں ہٹا ہی نہیں
بدل گئے ہیں مرے دوستوں کے لہجے بھی

طارق نعیم




عجب نہیں در و دیوار جیسے ہو جائیں
ہم ایسے لوگ جو خود سے کلام کرتے ہیں

طارق نعیم




عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے

طارق نعیم




بے وجہ نہ بدلے تھے مصور نے ارادے
میں اس کے خیالات میں پہلے بھی کہیں تھا

طارق نعیم




جمال مجھ پہ یہ اک دن میں تو نہیں آیا
ہزار آئینے ٹوٹے مرے سنورتے ہوئے

طارق نعیم




کھول دیتے ہیں پلٹ آنے پہ دروازۂ دل
آنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا جاتا

طارق نعیم




خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازار ہستی میں
گراں جس کو سمجھتا ہوں وہ کم قیمت نکلتا ہے

طارق نعیم