مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا
ابھی اس سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا
میں بنا رہا ہوں خیال و خواب کی بندشیں
مری بندشوں کو رواج ہی نہیں مل رہا
مجھے سلطنت تو ملی ہوئی ہے جمال کی
کسی عشق کا کوئی تاج ہی نہیں مل رہا
مجھے ملنے آئے گا شام کو مرا ہم سخن
مرا آئینہ مجھے آج ہی نہیں مل رہا
مرے چارہ گر کو پڑی ہوئی ہے علاج کی
مجھے اس کا کوئی علاج ہی نہیں مل رہا
ملے کارواں یہ بہت ہی دور کی بات ہے
ابھی کارواں کا مزاج ہی نہیں مل رہا
ابھی پھر رہا ہوں میں آپ اپنی تلاش میں
ابھی مجھ سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا
غزل
مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا
طارق نعیم