EN हिंदी
مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا | شیح شیری
mujhe zindagi se KHiraj hi nahin mil raha

غزل

مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا

طارق نعیم

;

مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا
ابھی اس سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا

میں بنا رہا ہوں خیال و خواب کی بندشیں
مری بندشوں کو رواج ہی نہیں مل رہا

مجھے سلطنت تو ملی ہوئی ہے جمال کی
کسی عشق کا کوئی تاج ہی نہیں مل رہا

مجھے ملنے آئے گا شام کو مرا ہم سخن
مرا آئینہ مجھے آج ہی نہیں مل رہا

مرے چارہ گر کو پڑی ہوئی ہے علاج کی
مجھے اس کا کوئی علاج ہی نہیں مل رہا

ملے کارواں یہ بہت ہی دور کی بات ہے
ابھی کارواں کا مزاج ہی نہیں مل رہا

ابھی پھر رہا ہوں میں آپ اپنی تلاش میں
ابھی مجھ سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا