بہ نام عشق یہی ایک کام کرتے ہیں
یہ زندگی کا سفر اس کے نام کرتے ہیں
عجب نہیں در و دیوار جیسے ہو جائیں
ہم ایسے لوگ جو خود سے کلام کرتے ہیں
یہ ماہ رو بھی تو ہوتے ہیں آنسوؤں کی طرح
کسی کی آنکھ میں کب یہ قیام کرتے ہیں
غضب کی دھوپ ہے اب کے سفر میں ہم نفسو
کسی کے سایۂ گیسو میں شام کرتے ہیں
تمہی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں
کتاب عمر تمہارے ہی نام کرتے ہیں
کچھ اس طرح تری آنکھوں میں اشک ہیں جیسے
شب سیہ میں ستارے خرام کرتے ہیں
عجیب لوگ ہیں طارق نعیمؔ شہر کے بھی
یہ تیر ہجر دلوں میں نیام کرتے ہیں
غزل
بہ نام عشق یہی ایک کام کرتے ہیں
طارق نعیم