مری نگاہ کسی زاویے پہ ٹھہرے بھی
میں دیکھ سکتا ہوں حد نظر سے آگے بھی
یہ راستہ مرے اپنے نشاں سے آیا ہے
مرے ہی نقش کف پا تھے مجھ سے پہلے بھی
میں اس کی آنکھ کے منظر میں آ تو سکتا ہوں
وہ کم نگاہ مجھے حاشیے میں رکھے بھی
میں اس کے حسن کی تھوڑی سی دھوپ لے آیا
وہ آفتاب تو ڈھلنے لگا تھا ویسے بھی
مرے کہے پہ مجھے چاک پر تو رکھتا ہے
مگر یہ چاک سے کہتا نہیں کہ گھومے بھی
ابھی تو منصب ہستی سے میں ہٹا ہی نہیں
بدل گئے ہیں مرے دوستوں کے لہجے بھی
میں ایک شیشۂ سادہ ہوں اور میسر ہوں
کسی کی آنکھ مرے آر پار دیکھے بھی
غزل
مری نگاہ کسی زاویے پہ ٹھہرے بھی
طارق نعیم