EN हिंदी
اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے | شیح شیری
agar kuchh bhi mere ghar se dam-e-ruKHsat nikalta hai

غزل

اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے

طارق نعیم

;

اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے
اٹھا لے جائے جس کا جو مری بابت نکلتا ہے

یہ ویرانی سی یوں ہی تو نہیں رہتی ہے آنکھوں میں
مرے دل ہی سے کوئی جادۂ وحشت نکلتا ہے

عجب حیرت سرا ہے یہ جہان تنگ داماں بھی
یہاں تو دل بھی دھڑکن سے دم حسرت نکلتا ہے

خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازار ہستی میں
گراں جس کو سمجھتا ہوں وہ کم قیمت نکلتا ہے

اک ایسی بستئ صورت گراں میں اب کے آیا ہوں
مجھے جو دیکھتا ہے میرا ہم صورت نکلتا ہے