اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے
اٹھا لے جائے جس کا جو مری بابت نکلتا ہے
یہ ویرانی سی یوں ہی تو نہیں رہتی ہے آنکھوں میں
مرے دل ہی سے کوئی جادۂ وحشت نکلتا ہے
عجب حیرت سرا ہے یہ جہان تنگ داماں بھی
یہاں تو دل بھی دھڑکن سے دم حسرت نکلتا ہے
خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازار ہستی میں
گراں جس کو سمجھتا ہوں وہ کم قیمت نکلتا ہے
اک ایسی بستئ صورت گراں میں اب کے آیا ہوں
مجھے جو دیکھتا ہے میرا ہم صورت نکلتا ہے
غزل
اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے
طارق نعیم