میں آ رہا تھا ستاروں پہ پاؤں دھرتے ہوئے
بدن اتار دیا خاک سے گزرتے ہوئے
جمال مجھ پہ یہ اک دن میں تو نہیں آیا
ہزار آئینے ٹوٹے مرے سنورتے ہوئے
عجب نظر سے چراغوں کی سمت دیکھا ہے
ہوا نے زینۂ پندار سے اترتے ہوئے
اک آدھ جام تو پی ہی لیا تھا ہم نے بھی
خمار خانۂ دنیا کی سیر کرتے ہوئے
نہ جانے کیا دل صیاد میں خیال آیا
وہ رو دیا تھا مرے بال و پر کترتے ہوئے
اب آسمان بھی کم پڑ رہے ہیں اس کے لیے
قدم زمین پر رکھا تھا جس نے ڈرتے ہوئے
وہی ستارہ ستاروں کا حکمراں ٹھہرا
لرز رہا تھا جو پہلی زقند بھرتے ہوئے
وہ آئنہ تھا میں طارق نعیمؔ ٹوٹ کے بھی
ہزار عکس بناتا گیا بکھرتے ہوئے
غزل
میں آ رہا تھا ستاروں پہ پاؤں دھرتے ہوئے
طارق نعیم