عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
کسی کا بھی نہ چراغوں کی سمت دھیان گیا
شب نشاط وہ کب کب بجھے تھے کب روئے
ہزار گریہ کے پہلو نکلنے والے ہیں
اسے کہو کہ وہ یوں ہی نہ بے سبب روئے
ہمارے زاد سفر میں بھی درد رکھا گیا
سو ہم بھی ٹوٹ کے روئے سفر میں جب روئے
کسی کی آنکھ ہی بھیگی نہ سیل درد گیا
تمہاری یاد میں اب کے برس عجب روئے
ترے خیال کی لو ہی سفر میں کام آئی
مرے چراغ تو لگتا تھا روئے اب روئے
کچھ اپنا درد ہی طارقؔ نعیم ایسا تھا
بغیر موسم گریہ بھی ہم غضب روئے
غزل
عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
طارق نعیم