پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا
میں ارض و سماوات میں پہلے بھی کہیں تھا
اک لمحۂ غفلت نے مجھے زیر کیا ہے
دشمن تو مری گھات میں پہلے بھی کہیں تھا
بے وجہ نہ بدلے تھے مصور نے ارادے
میں اس کے خیالات میں پہلے بھی کہیں تھا
اس کے یہ خد و خال زمانوں میں بنے ہیں
یہ شہر مضافات میں پہلے بھی کہیں تھا
کس زعم سے آئی ہے سحر لے کے اجالا
سورج تو سیہ رات میں پہلے بھی کہیں تھا
اک حرف جو اب جا کے ثمر بار ہوا ہے
وہ میری مناجات میں پہلے بھی کہیں تھا
میں چاک پہ رکھا نہ گیا تھا کہ مرا ذکر
نا گفتہ حکایات میں پہلے بھی کہیں تھا
غزل
پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا
طارق نعیم