اب یہ ہنگامۂ دنیا نہیں دیکھا جاتا
روز اپنا ہی تماشا نہیں دیکھا جاتا
سیر ہستی میں کہیں اور بھی گھوم آتے ہیں
ایک ہی شہر تمنا نہیں دیکھا جاتا
خنکئ لمس رفاقت ہی بہت ہوتی ہے
دھوپ ہم دم ہو تو سایہ نہیں دیکھا جاتا
کھول دیتے ہیں پلٹ آنے پہ دروازۂ دل
آنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا جاتا
آسمانوں میں بھی اک ایسی کماں ہے جس سے
کوئی خوش رنگ پرندہ نہیں دیکھا جاتا
اپنے ہونٹوں پہ بچھا دیتا ہوں اک موج سراب
پیاس ایسی ہے کہ دریا نہیں دیکھا جاتا
فرط وحشت میں کہیں اور نکل آیا ہوں
گھر کا رستہ ہے کہ صحرا نہیں دیکھا جاتا
میری جانب بھی تو رخ کر کبھی اے شاہ جمال
آئینہ مجھ سے زیادہ نہیں دیکھا جاتا
غزل
اب یہ ہنگامۂ دنیا نہیں دیکھا جاتا
طارق نعیم