EN हिंदी
تنویر انجم شیاری | شیح شیری

تنویر انجم شیر

9 شیر

دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
ترا کرم ہے بہت پر مرے عذاب بہت

تنویر انجم




دور تک یہ راستے خاموش ہیں
دور تک ہم خود کو سنتے جائیں گے

تنویر انجم




فریب قرب یار ہو کہ حسرت سپردگی
کسی سبب سے دل مجھے یہ بے قرار چاہئے

تنویر انجم




غم زمانہ جب نہ ہو غم وجود ڈھونڈ لوں
کہ اک زمین جاں جو ہے وہ داغ دار چاہئے

تنویر انجم




اس خوبیٔ قسمت پہ مجھے ناز بہت ہے
وہ شخص مری جاں کا طلب گار ہوا ہے

تنویر انجم




لمحۂ امکان کو پہلو بدلتے دیکھنا
آتش بے رنگ میں خود کو پگھلتے دیکھنا

تنویر انجم




مجھے عزیز ہے بے احتیاطیٔ سادہ
نہ شوق ہے نہ ہنر اس کو آزمانے کا

تنویر انجم




شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں
پھر لوگ میرے اندر سنسان ہو گئے ہیں

تنویر انجم




ٹوٹی ہے یہ کشتی تو مرے ساتھ سفر کو
وہ جان مسافت مرا تیار ہوا ہے

تنویر انجم