EN हिंदी
شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں | شیح شیری
shahron ke sare jangal gunjaan ho gae hain

غزل

شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں

تنویر انجم

;

شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں
پھر لوگ میرے اندر سنسان ہو گئے ہیں

ان دوریوں کی مشکل آنکھوں میں بجھ گئی ہے
ہم آنسوؤں میں بہہ کر آسان ہو گئے ہیں

ایسی خموشیاں ہیں سب راستے جدا ہیں
الفاظ میں جزیرے ویران ہو گئے ہیں

تم برف میں نہ جانے کب سے جمے ہوئے ہو
ہم جانے کس ہوا کا طوفان ہو گئے ہیں

جسموں کی سردیوں میں پھر جل گئے ہیں رشتے
سب ایک دوسرے کے مہمان ہو گئے ہیں