طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
کہ ایک سودا رہا جنس دل لٹانے کا
فریب خواب مرے راستے کو روک نہیں
کہ وقت شام ہے یہ غم کدے کو جانے کا
ترے وجود سے پہچان مجھ کو اپنی تھی
ترا یقین تھا مجھ کو یقیں زمانے کا
خراب عشق ہوں خود موت ہوں میں اپنے لیے
سکھا رہی ہوں ہنر خود کو دل جلانے کا
ہر ایک شاخ ستم سے میں پھول توڑتی ہوں
ہوا ہے شوق چمن زار غم بنانے کا
نشہ عجیب ہے اس جنگ بے ثمر کا مجھے
خمار خوب ہے خون خرد بہانے کا
شب وصال میں اک نقطۂ توقف ہوں
اور اک جنوں ہے اسے منزلوں کو پانے کا
دل تباہ کو بے دام بیچ دیتی ہوں
کہ کاروبار ہے یہ جنس غم کمانے کا
مجھے عزیز ہے بے احتیاطیٔ سادہ
نہ شوق ہے نہ ہنر اس کو آزمانے کا
قفس بدن کا مجھے کچھ مرا ثبوت نہیں
یہ طائر دل و جاں لوٹ کر نہ آنے کا
غزل
طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
تنویر انجم