اظہار جنوں بر سر بازار ہوا ہے
دل دست تمنا کا گرفتار ہوا ہے
بے ہوش گنہ جو دل بیمار ہوا ہے
اک شوق طلب سا مجھے تلوار ہوا ہے
صحرائے تمنا میں مرا دل تجھے پا کر
شہر ہوس آلود سے بیزار ہوا ہے
بے ہوش خرد کو جنوں آگاہ کرے گا
یہ جذب جو آمادۂ پیکار ہوا ہے
میں وصل کی شب رقص غم آمیز کروں گی
اک درد مرا ہم شب بے دار ہوا ہے
اس درجہ نشہ کب ہے کہ گمراہ رہوں میں
یہ ہوش مرا دشمن دشوار ہوا ہے
ٹوٹی ہے یہ کشتی تو مرے ساتھ سفر کو
وہ جان مسافت مرا تیار ہوا ہے
اس خوبیٔ قسمت پہ مجھے ناز بہت ہے
وہ شخص مری جاں کا طلب گار ہوا ہے
میں آئینۂ دل کو سر خواب ہی توڑوں
اس دشت شناسا کا یہ اصرار ہوا ہے
کچھ کام کب آیا ہے مرا گریۂ شب بھی
اسراف دل و جاں مرا بے کار ہوا ہے
غزل
اظہار جنوں بر سر بازار ہوا ہے
تنویر انجم