کبھی وہ مثل گل مجھے مثال خار چاہئے
کبھی مزاج مہرباں وفا شعار چاہئے
جبین خود پسند کو سزائے درد یاد ہو
سر جنون کوش میں خیال دار چاہئے
فریب قرب یار ہو کہ حسرت سپردگی
کسی سبب سے دل مجھے یہ بے قرار چاہئے
غم زمانہ جب نہ ہو غم وجود ڈھونڈ لوں
کہ اک زمین جاں جو ہے وہ داغ دار چاہئے
وہ آزمائش جنوں وہ امتحان بے خودی
وہ صحبت تباہ کن پھر ایک بار چاہئے
غزل
کبھی وہ مثل گل مجھے مثال خار چاہئے
تنویر انجم