دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
ترا کرم ہے بہت پر مرے عذاب بہت
تو کتنا دور بھی ہے کس قدر قریب بھی ہے
بڑا ہے ہجر کا صحرائے پر سراب بہت
حقیقت شب ہجراں کے راز کھوئے گئے
طویل دن ہیں بڑے راستے خراب بہت
چلیں گے کتنا ترے غم کے ساتھ ساتھ قدم
شکنجہ ہائے زمانہ ہیں بے حساب بہت
اتر گیا ہے خمار شراب ذات کہیں
ہوئے ہیں گردش دوراں سے فیضیاب بہت
غزل
دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
تنویر انجم