EN हिंदी
دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت | شیح شیری
dukhon ke rup bahut aur sukhon ke KHwab bahut

غزل

دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت

تنویر انجم

;

دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
ترا کرم ہے بہت پر مرے عذاب بہت

تو کتنا دور بھی ہے کس قدر قریب بھی ہے
بڑا ہے ہجر کا صحرائے پر سراب بہت

حقیقت شب ہجراں کے راز کھوئے گئے
طویل دن ہیں بڑے راستے خراب بہت

چلیں گے کتنا ترے غم کے ساتھ ساتھ قدم
شکنجہ ہائے زمانہ ہیں بے حساب بہت

اتر گیا ہے خمار شراب ذات کہیں
ہوئے ہیں گردش دوراں سے فیضیاب بہت