برسوں پہلے جس دریا میں اترا تھا
اب تک اس کی گہرائی ہے آنکھوں میں
طاہر عظیم
ان باتوں پر مت جانا جو عام ہوئیں
دیکھو کتنی سچائی ہے آنکھوں میں
طاہر عظیم
جو بہت بے قرار رکھتے تھے
ہاں وہی تو قرار کے دن تھے
طاہر عظیم
جو ترے انتظار میں گزرے
بس وہی انتظار کے دن تھے
طاہر عظیم
میں ترے ہجر کی گرفت میں ہوں
ایک صحرا ہے مبتلا مجھ میں
طاہر عظیم
میں ترے ہجر میں جو زندہ ہوں
سوچتا ہوں وصال سے آگے
طاہر عظیم
مجھ کو بھی حق ہے زندگانی کا
میں بھی کردار ہوں کہانی کا
طاہر عظیم
رہتا ہے ذہن و دل میں جو احساس کی طرح
اس کا کوئی پتا بھی ضروری نہیں کہ ہو
طاہر عظیم
شہر کی اس بھیڑ میں چل تو رہا ہوں
ذہن میں پر گاؤں کا نقشہ رکھا ہے
طاہر عظیم