یہ جو شیشہ ہے دل نما مجھ میں
ٹوٹ جاتا ہے بارہا مجھ میں
میں ترے ہجر کی گرفت میں ہوں
ایک صحرا ہے مبتلا مجھ میں
من مہکتا ہے کس کی خوشبو سے
کون رہتا ہے پھول سا مجھ میں
کتنے لمحات کا تھا اک لمحہ
زندگی بھر رکا رہا مجھ میں
اس کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے
اور سیلاب آ گیا مجھ میں
جب بھی اپنی تلاش کو نکلوں
لوٹ آتا ہے راستہ مجھ میں
اختلافات ذہن و دل میں تھے
اک تصادم سدا رہا مجھ میں
غزل
یہ جو شیشہ ہے دل نما مجھ میں
طاہر عظیم