EN हिंदी
ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو | شیح شیری
har dard ki dawa bhi zaruri nahin ki ho

غزل

ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو

طاہر عظیم

;

ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو
میرے لئے ذرا بھی ضروری نہیں کہ ہو

رہتا ہے ذہن و دل میں جو احساس کی طرح
اس کا کوئی پتا بھی ضروری نہیں کہ ہو

انسان سے ملو بھی تو انسان جان کر
ہر شخص دیوتا بھی ضروری نہیں کہ ہو

کس نے تمہیں زبان عطا کی کہ آج تم
کہتے ہو جو خدا بھی ضروری نہیں کہ ہو

قائم عظیمؔ اس کی رضا سے ہے زندگی
اس میں مری رضا بھی ضروری نہیں کہ ہو