ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو
میرے لئے ذرا بھی ضروری نہیں کہ ہو
رہتا ہے ذہن و دل میں جو احساس کی طرح
اس کا کوئی پتا بھی ضروری نہیں کہ ہو
انسان سے ملو بھی تو انسان جان کر
ہر شخص دیوتا بھی ضروری نہیں کہ ہو
کس نے تمہیں زبان عطا کی کہ آج تم
کہتے ہو جو خدا بھی ضروری نہیں کہ ہو
قائم عظیمؔ اس کی رضا سے ہے زندگی
اس میں مری رضا بھی ضروری نہیں کہ ہو
غزل
ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو
طاہر عظیم