EN हिंदी
بڑھ رہا ہوں خیال سے آگے | شیح شیری
baDh raha hun KHayal se aage

غزل

بڑھ رہا ہوں خیال سے آگے

طاہر عظیم

;

بڑھ رہا ہوں خیال سے آگے
کچھ نہیں ماہ و سال سے آگے

بس حقیقت ہے جو نظر آیا
ہے فسانہ جمال سے آگے

میں ترے ہجر میں جو زندہ ہوں
سوچتا ہوں وصال سے آگے

اس قدر با کمال ہیں یہ لوگ
کچھ کریں گے کمال سے آگے

شوق صدمے سے ہو گیا دو چار
بڑھ نہ پایا دھمال سے آگے

یہ جو ماضی کی بات کرتے ہیں
سوچتے ہوں گے حال سے آگے