اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے
خون ہی نے خون کو پسپا رکھا ہے
اب جنون خود نمائی میں تو ہم نے
وحشتوں کا اک دریچہ وا رکھا ہے
شہر کیسے اب حقیقت آشنا ہو
آگہی پر ذات کا پہرہ رکھا ہے
تیرگی کی کیا عجب ترکیب ہے یہ
اب ہوا کے دوش پر دیوا رکھا ہے
تم چراغوں کو بجھانے پر تلے ہو
ہم نے سورج کو بھی اب اپنا رکھا ہے
تم ہمارے خون کی قیمت نہ پوچھو
اس میں اپنے ظرف کا عرصہ رکھا ہے
شہر کی اس بھیڑ میں چل تو رہا ہوں
ذہن میں پر گاؤں کا نقشہ رکھا ہے
یہ عظیمؔ اپنا کمال ظرف ہے جو
دشمنوں کے عیب پر پردہ رکھا ہے
غزل
اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے
طاہر عظیم