اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں
اپنی صورت دھندلائی ہے آنکھوں میں
آج چمن کا حال نہ پوچھو ہم نفسو
آج خزاں کی رت آئی ہے آنکھوں میں
برسوں پہلے جس دریا میں اترا تھا
اب تک اس کی گہرائی ہے آنکھوں میں
ان باتوں پر مت جانا جو عام ہوئیں
دیکھو کتنی سچائی ہے آنکھوں میں
ان میں اب بھی حرف محبت بستا ہے
اسی لئے تو گہرائی ہے آنکھوں میں
ہاتھ پکڑ کر جس کا چلنا سیکھا ہے
اس کے نام کی بینائی ہے آنکھوں میں
دھوپ عظیمؔ اب پھیلی ہے جو شدت سے
تو سائے کی رعنائی ہے آنکھوں میں
غزل
اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں
طاہر عظیم