EN हिंदी
اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں | شیح شیری
ek wahshat si dar aai hai aankhon mein

غزل

اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں

طاہر عظیم

;

اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں
اپنی صورت دھندلائی ہے آنکھوں میں

آج چمن کا حال نہ پوچھو ہم نفسو
آج خزاں کی رت آئی ہے آنکھوں میں

برسوں پہلے جس دریا میں اترا تھا
اب تک اس کی گہرائی ہے آنکھوں میں

ان باتوں پر مت جانا جو عام ہوئیں
دیکھو کتنی سچائی ہے آنکھوں میں

ان میں اب بھی حرف محبت بستا ہے
اسی لئے تو گہرائی ہے آنکھوں میں

ہاتھ پکڑ کر جس کا چلنا سیکھا ہے
اس کے نام کی بینائی ہے آنکھوں میں

دھوپ عظیمؔ اب پھیلی ہے جو شدت سے
تو سائے کی رعنائی ہے آنکھوں میں