آنسوؤں سے کوئی آواز کو نسبت نہ سہی
بھیگتی جائے تو کچھ اور نکھرتی جائے
غلام ربانی تاباںؔ
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہ حیات میں ایسے مقام بھی آئے
غلام ربانی تاباںؔ
بستیوں میں ہونے کو حادثے بھی ہوتے ہیں
پتھروں کی زد پر کچھ آئنے بھی ہوتے ہیں
غلام ربانی تاباںؔ
چھٹے غبار نظر بام طور آ جائے
پیو شراب کہ چہرے پہ نور آ جائے
غلام ربانی تاباںؔ
غم زندگی اک مسلسل عذاب
غم زندگی سے مفر بھی نہیں
غلام ربانی تاباںؔ
غبار راہ چلا ساتھ یہ بھی کیا کم ہے
سفر میں اور کوئی ہم سفر ملے نہ ملے
غلام ربانی تاباںؔ
ہماری طرح خراب سفر نہ ہو کوئی
الٰہی یوں تو کسی کا نہ راہبر گم ہو
غلام ربانی تاباںؔ
جناب شیخ سمجھتے ہیں خوب رندوں کو
جناب شیخ کو ہم بھی مگر سمجھتے ہیں
غلام ربانی تاباںؔ
جنوں میں اور خرد میں در حقیقت فرق اتنا ہے
وہ زیر در ہے ساقی اور یہ زیر دام ہے ساقی
غلام ربانی تاباںؔ