ہجوم درد کا اتنا بڑھے اثر گم ہو
ملے وہ رات کہ جس رات کی سحر گم ہو
مزا تو جب ہے کہ آوارگان شوق کے ساتھ
غبار بن کے چلے اور رہ گزر گم ہو
ہماری طرح خراب سفر نہ ہو کوئی
الٰہی یوں تو کسی کا نہ راہبر گم ہو
چلے ہیں ہم بھی چراغ نظر جلائے ہوئے
یہ روشنی بھی کہیں راہ میں اگر گم ہو
تلاش دوست ہے دل کو مگر خدا جانے
کہاں کہاں یہ بھٹکتا پھرے کدھر گم ہو
چمن چمن ہیں وہ نشو و نما کے ہنگامے
گلوں کو ڈھونڈنے جائے تو خود نظر گم ہو
سخن کی جان ہے حسن بیاں مگر تاباںؔ
نہ یوں کہ لفظ ہی رہ جائیں فکر تر گم ہو
غزل
ہجوم درد کا اتنا بڑھے اثر گم ہو
غلام ربانی تاباںؔ