زندگی دل پہ عجب سحر سا کرتی جائے
اک جگہ ٹھہری لگے اور گزرتی جائے
آنسوؤں سے کوئی آواز کو نسبت نہ سہی
بھیگتی جائے تو کچھ اور نکھرتی جائے
دیکھتے دیکھتے دھندلا گئے منظر سارے
تیری زلفوں کی طرح شام بکھرتی جائے
بات کا راز کھلے بات کا انداز کھلے
تیرے ہونٹوں سے چلے دل میں اترتی جائے
رفتہ رفتہ کسی گم نام لہو کی تحریر
قاتل شہر کے دامن پہ ابھرتی جائے
ہو کے برباد چلے صحن چمن سے نکہت
دشت و صحرا کی مگر جھولیاں بھرتی جائے
میں نے کب دعویٰ الہام کیا ہے تاباںؔ
لکھ دیا کرتا ہوں جو دل پہ گزرتی جائے
غزل
زندگی دل پہ عجب سحر سا کرتی جائے
غلام ربانی تاباںؔ