گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
بہار آئی تو گلشن میں دام بھی آئے
ہمیں نہ کر سکے تجدید آرزو ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے
چلا نہ کام اگرچہ بہ زعم راہبری
جناب خضر علیہ السلام بھی آئے
جو تشنہ کام ازل تھے وہ تشنہ کام رہے
ہزار دور میں مینا و جام بھی آئے
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہ حیات میں ایسے مقام بھی آئے
غزل
گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
غلام ربانی تاباںؔ