آج تبسمؔ سب کے لب پر
افسانے ہیں میرے تیرے
صوفی تبسم
ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
it should not be that this ache intensifies past remedy
it should not happen even you do not have a cure for me
صوفی تبسم
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
صوفی تبسم
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
صوفی تبسم
دلوں کا ذکر ہی کیا ہے ملیں ملیں نہ ملیں
نظر ملاؤ نظر سے نظر کی بات کرو
صوفی تبسم
ایک شعلہ سا اٹھا تھا دل میں
جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں
صوفی تبسم
حسن کا دامن پھر بھی خالی
عشق نے لاکھوں اشک بکھیرے
صوفی تبسم
اک فقط یاد ہے جانا ان کا
اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں
صوفی تبسم
اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
صوفی تبسم