EN हिंदी
صوفی تبسم شیاری | شیح شیری

صوفی تبسم شیر

16 شیر

جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں

صوفی تبسم




جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے

صوفی تبسم




کون کس کا غم کھائے کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا میری بے بسی تنہا

صوفی تبسم




کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے

صوفی تبسم




کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے

صوفی تبسم




ملتے گئے ہیں موڑ نئے ہر مقام پر
بڑھتی گئی ہے دوریاں منزل جگہ جگہ

صوفی تبسم




روز دہراتے تھے افسانۂ دل
کس طرح بھول گیا یاد نہیں

صوفی تبسم