EN हिंदी
صدیق شاہد شیاری | شیح شیری

صدیق شاہد شیر

8 شیر

ایسا کچھ گردش دوراں نے رکھا ہے مصروف
ماجرے ہو نہ سکے ہم سے قلم بند اپنے

صدیق شاہد




بجا ہے خواب نوردی پہ خواب ایسے ہوں
کھلے جو آنکھ تو اپنا ہی گھر کھنڈر نہ لگے

صدیق شاہد




کھلا نہ اس پہ کبھی میری آنکھ کا منظر
جمی ہے آنکھ میں کائی کوئی دکھائے اسے

صدیق شاہد




خواب ٹوٹے پڑے ہیں سب میرے
میں ہوں اور حیرتوں کا ساماں ہے

صدیق شاہد




کچھ ایسے دور بھی تاہم گرفت میں آئے
کہ یہ زمیں رہی باقی نہ آسماں ہی رہا

صدیق شاہد




مجھ سے کہتی ہیں وہ اداس آنکھیں
زندگی بھر کی سب تھکن یاں ہے

صدیق شاہد




نکل آئے جو ہم گھر سے تو سو رستے نکل آئے
عبث تھا سوچنا گھر میں کوئی غیبی اشارہ ہو

صدیق شاہد




اس کے جانے پہ یہ احساس ہوا ہے شاہدؔ
وہ جزیرہ تھا مرا دکھ سے بھرے پانی میں

صدیق شاہد