شہر صحرا ہے گھر بیاباں ہے
دل کسی انجمن کا خواہاں ہے
مجھ سے کہتی ہیں وہ اداس آنکھیں
زندگی بھر کی سب تھکن یاں ہے
خواب ٹوٹے پڑے ہیں سب میرے
میں ہوں اور حیرتوں کا ساماں ہے
ہر مسرت گندھی ہوئی دکھ میں
ارض اضداد دشت امکاں ہے
تو سمندر کی بے کناری دیکھ
اس میں معیار ظرف پنہاں ہے
ہیں روا سارے ناروا اس کو
یہ نئے موسموں کا انساں ہے
مر کے پہنچا تو ہوں لب دریا
خالی اب تشنگی کا داماں ہے
سب نے شاہدؔ چنے پسند کے پھول
گل کدہ پھر بھی گل بہ داماں ہے

غزل
شہر صحرا ہے گھر بیاباں ہے
صدیق شاہد