چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں
خواب تو دب چکے اس کوچے کی ویرانی میں
توڑ کر پاؤں پڑے ہیں کہ وہ ہمت نہ رہی
اڑتے بادل تھے کبھی چاک گریبانی میں
ہجر کی راہ میں چلتے رہے گرتے پڑتے
ساتھ کچھ بھی نہ لیا بے سر و سامانی میں
اس شہنشاہ کو میں کیسے شہنشاہ کہوں
سرحدیں ٹوٹتی ہوں جس کی جہاں بانی میں
پہنچے منزل پہ تو حاصل تھا فقط یاس و ہراس
عمر اک بیت گئی سلسلہ جنبانی میں
اس کے جانے پہ یہ احساس ہوا ہے شاہدؔ
وہ جزیرہ تھا مرا دکھ سے بھرے پانی میں
غزل
چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں
صدیق شاہد