فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہو
بغیر اس کے بھی شاید زندگی ہم کو گوارا ہو
نکل آئے جو ہم گھر سے تو سو رستے نکل آئے
عبث تھا سوچنا گھر میں کوئی غیبی اشارہ ہو
نہ اس ڈھب کی بھی ظلمت ہو کہ سب مل کر دعا مانگیں
کوئی جگنو ہی آ نکلے نہ گر کوئی ستارہ ہو
زیاں کی زد پہ دنیا میں کئی لوگ اور بھی ہوں گے
تو پھر اے نا مرادی تو مرے غم کا سہارا ہو
تقابل کثرت و قلت کا کچھ معنی نہیں رکھتا
اندھیرا چیر کر نکلے اگرچہ اک شرارہ ہو
پرانے غم ترے تو جزو جاں ہم نے بنا ڈالے
بساط دل کی خواہش ہے نئے غم کا اتارا ہو
فصیل شہر پہ روشن اگر ہوں حسن کی شمعیں
تو اک اک لفظ شاہدؔ روشنی کا استعارہ ہو
غزل
فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہو
صدیق شاہد