ہوں کس مقام پہ دل میں ترے خبر نہ لگے
ترے سلیقۂ گفتار کو نظر نہ لگے
گھرا ہوا تھا تو کچھ ناگوار لوگوں میں
ملال یہ ہے کہ اس وقت ہم کو پر نہ لگے
اسیر قریۂ وحشت ہوں ایک مدت سے
خرد کی راہ کسی طور معتبر نہ لگے
مکاں وہی ہے پر اس کا مکین کیا اٹھا
سحر بھی ہو تو وہ پہلی سی اب سحر نہ لگے
اکیلی شام کھڑی تھی اداس جنگل میں
طیور با خبر و آشنا شجر نہ لگے
سزائے جذبہ و احساس جاں کے ساتھ رہی
وہ روگ روگ ہی کیا ہے جو عمر بھر نہ لگے
بجا ہے خواب نوردی پہ خواب ایسے ہوں
کھلے جو آنکھ تو اپنا ہی گھر کھنڈر نہ لگے
جو باکمالوں کی توقیر کم کرے شاہدؔ
ہمارے ہاتھ کوئی ایسا بھی ہنر نہ لگے
غزل
ہوں کس مقام پہ دل میں ترے خبر نہ لگے
صدیق شاہد