فغان روح کوئی کس طرح سنائے اسے
کہ زخم زخم بدن تو نظر نہ آئے اسے
نہ دیکھنے کی سزا وار جس کو آنکھ ہوئی
کوئی پیاسا بھلا ہاتھ کیا لگائے اسے
سرور لذت حاصل کا کچھ سوا ہوگا
چلن عطا کا اگر خسروانہ آئے اسے
مرے لہو میں اتر آئیں گے نئے موسم
چنی ہے دل میں جو دیوار سی وہ ڈھائے اسے
کھلا نہ اس پہ کبھی میری آنکھ کا منظر
جمی ہے آنکھ میں کائی کوئی دکھائے اسے
وہ روشنی کا حوالہ وہ رنگ و بو کا سفیر
مری جمال پسندی کہیں سے لائے اسے
فروغ حسن شگفت گل و رم شبنم
فریب کیسے یہ شاہدؔ کوئی سجھائے اسے
غزل
فغان روح کوئی کس طرح سنائے اسے
صدیق شاہد