EN हिंदी
آگ کو پھول کہے جائیں خردمند اپنے | شیح شیری
aag ko phul kahe jaen KHird-mand apne

غزل

آگ کو پھول کہے جائیں خردمند اپنے

صدیق شاہد

;

آگ کو پھول کہے جائیں خردمند اپنے
اور آنکھوں پہ رکھیں دید کے در بند اپنے

لاکھ چاہا کہ غم و فکر جہاں سے چھوٹیں
جامۂ دل پہ یہ سجتے رہے پیوند اپنے

شہر میں دھوم مچاتی رہی کیا تازہ ہوا
ہم نے در وا نہ کیا ہم ہیں گلہ مند اپنے

سطح قرطاس پہ اترے نہ تری گل بدنی
کتنے عاجز ہوئے جاتے ہیں ہنر مند اپنے

مرحلہ طے نہ ہوا اہل تذبذب سے کوئی
جرم تشکیک سے بیٹھے رہے پابند اپنے

ایسا کچھ گردش دوراں نے رکھا ہے مصروف
ماجرے ہو نہ سکے ہم سے قلم بند اپنے

ہم تو مر جاتے غم ہجر کے ہاتھوں شاہدؔ
دشت آفاق میں ہوتے نہ اگر چند اپنے